ڈاکٹر آنند تِلتُمڈے کی کتاب ’’سیل اینڈ دی سول‘‘ کی شاندار رونمائی
قید کی اذیتوں اور فکری آزادی کی سچی داستان، ممبئی میں یادگار تقریب
ممبئی، 31 اکتوبر (حقیقت ٹائمز)
ممبئی مراٹھی پترکار سنگھ کے آڈیٹوریم میں جمعرات کی شام ایک غیر معمولی تقریب منعقد ہوئی، جہاں معروف دانشور اور اسکالر ڈاکٹر آنند تِلتُمڈے کی قیدِ تنہائی پر مبنی کتاب دی سیل اینڈ دی سول ، یہ برزن میمویر کی رونمائی عمل میں آئی۔یہ تقریب انوسنس نیٹ ورک انڈیا اور مولبھت ادھیکار سنگھرش سمیتی (ماس) کے اشتراک سے منعقد کی گئی تھی، جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔کتاب کی اشاعت بلومز بری انڈیا نے کی ہے، اور اس کا اجراء ڈاکٹر بھال چندر منگےکر (سابق وائس چانسلر، ممبئی یونیورسٹی و راجیہ سبھا ایم پی) کے ہاتھوں انجام پایا۔تقریب میں ممتاز شخصیات نے شرکت کی، جن میں ایڈووکیٹ مِہِر دیسائی، ڈاکٹر گایتری سنگھ، مصنفِ کتاب ڈاکٹر آنند تِلتُمڈے، بلومز بری کے سینئر ایڈیٹر چراغ ٹھاکر، اور دو سابق قیدی — احتشام صدیقی اور ڈاکٹر عبد الواحد شیخ شامل تھے، جو 2006 ممبئی ٹرین بلاسٹ کیس میں بری ہو چکے ہیں۔تقریب کی نظامت معروف سماجی کارکن ڈاکٹر ویویک کورڈے نے کی۔پروگرام کا آغاز فیض احمد فیض کی شہرۂ آفاق نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کی ولولہ انگیز پیشکش سے ہوا، جس نے پورے ہال کو احتجاج اور امید کی فضا میں محو کر دیا۔تقریب کے میزبان اور ’’انوسنس نیٹ ورک انڈیا‘‘ کے بانی ڈاکٹر عبد الواحد شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے، جب تین سابق قیدی ایک ہی اسٹیج پر موجود ہیں — اور تینوں نے اپنی قید کے تجربات کو کتابوں کی صورت میں قلم بند کیا ہے۔انہوں نے ڈاکٹر تِلتُمڈے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ "انہوں نے جیل کی پابندیوں کو فکری مزاحمت میں بدل دیا۔"احتشام صدیقی، جنہوں نے 19 سال جیل میں گزارے، نے ہندوستانی جیل نظام کو ’’اصلاح نہیں، سزا دینے کی جگہ‘‘ قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے قید کے دوران اگنو کے ذریعے 22 کورسز مکمل کیے، لیکن تعلیم حاصل کرنا خود ایک بڑی جدوجہد تھی۔ان کی کتاب ’’ہارر ساگا‘‘ میں ریاستی جبر اور پولیس کی زیادتیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔مرکزی مقرر ڈاکٹر آنند تِلتُمڈے نے اپنے خطاب میں کہا کہ "میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایک جیل کی یادداشت لکھوں گا — بلکہ کبھی یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ میں گرفتاری کے قابل ٹھہروں گا!"انہوں نے اپنی گرفتاری کو ’’سیاسی سزا‘‘ قرار دیا اور طنزیہ لہجے میں کہا کہ’’میں موجودہ حکومت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ انعام دیا، جس نے ڈاکٹر امبیڈکر کے جمہوری ہندوستان کو ایک جابرانہ ریاست میں بدل دیا۔‘ کتاب کی تخلیق تلو جا سینٹرل جیل میں 31 ماہ کی قید کے دوران ہوئی۔یہ کتاب ڈاکٹر تِلتُمڈے کے بھائی ملند تِلتُمڈے (جو 2021 کے ایک انکاؤنٹر میں مارے گئے) اور فادر اسٹین سوامی (جو اسی کیس میں قید کے دوران انتقال کر گئے) کو وقف کی گئی ہے۔ایڈووکیٹ ڈاکٹر گایتری سنگھ نے کہا کہ یہ کتاب ’’نظام کی بے حسی کا آئینہ‘‘ ہے، اور بتایا کہ کس طرح تعلیم یافتہ اور معزز افراد کو ’’میڈیا ٹرائل‘‘ اور ’’پولیس زیادتی‘‘ کے ذریعے مجرم بنایا جاتا ہے۔انہوں نے فادر اسٹین سوامی کی المناک موت کو یاد کیا اور عدلیہ کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ایڈووکیٹ مِہِر دیسائی نے موجودہ سیاسی ماحول پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملک کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ جلد ہی جیل یادداشتوں کی ایک نئی صنف وجود میں آئے گی۔‘‘انہوں نے عدلیہ کی تعریفوں اور عمل میں تضاد کو ’’نظام کی سب سے بڑی ناکامی‘‘ قرار دیا۔مہمانِ خصوصی ڈاکٹر بھال چندر منگےکر نے کتاب کو ’’روح کو جھنجھوڑ دینے والی دستاویز‘‘ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ’’یہ کتاب ہندوستانی جمہوریت کے نقاب کو ہٹا کر ریاستی جبر کی اصل تصویر دکھاتی ہے۔‘‘انہوں نے کتاب کے ایک باب ’’ اے نیشن آف اینٹی نیشنلس‘‘ سے اقتباس پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’آج ہندوستان میں قوم پرستی اختلافِ رائے کو دبانے کا ہتھیار بن چکی ہے۔‘‘تقریب کا اختتام ایک بار پھر ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کی گونج سے ہوا، جس نے حاضرین کے دلوں میں انصاف، سچائی اور انسانی وقار کی جدوجہد کا پیغام تازہ کر دیا۔کتاب کی تعریف ممتاز مفکرین رام چندر گوہا، ارون دھتی رائے، اور شانتا گوکھلے نے کی ہے۔ کتاب کو ہندوستانی جیل ادب میں ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے —ایک ایسی تحریر جو قید کو احتجاج میں، اور اذیت کو سچائی کے اعتراف میں بدل دیتی ہے۔
Post a Comment