جدید لائف اسٹائل کے اثرات اور طلاق کلچر کا فروغ تشویشناک
از : سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
ازدواجی تنازعات کے بڑھتے واقعات میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے،ایک تازہ رپورٹ کے مطابق شہر میں طلاق کلچر کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے،یہ سنگین صورتحال جدید لائف اسٹائل کے اثرات کا نتیجہ ہے،ہر ماہ 250 شادیاں ٹوٹ رہی ہیں جو آئی ٹی سٹی کا نیا بحران ہے، کیریئر جیت رہا ہے اور رشتے ہار رہے ہیں،رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے آئی ٹی ہب حیدرآباد میں تیزی سے بدلتے طرز زندگی نے شادی شدہ جوڑوں کے رشتوں پر گہرا اثر ڈالنا شروع کردیا ہے،نوجوان کیرئیر،تعلیم اور آزادی کو ترجیح دے رہے ہیں مگر یہی تبدیلیاں ازدواجی رشتوں میں تناؤ اور فاصلوں کا بڑا سبب بن رہی ہیں۔ملک میں طلاق کی مجموعی شرح اب بھی صرف ایک فیصد ہے جو عالمی اوسط دو فیصد سے کم ہے لیکن نوجوان نسل میں طلاق کے بڑھتے واقعات انتہائی تشویش ناک ہیں، گزشتہ دو دہائیوں میں ملک میں طلاق کے واقعات دوگنے ہو چکے ہیں،بالخصوص میٹرو شہروں میں گزشتہ 10 برسوں میں 30 تا 40 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے،ریاست تلنگانہ میں طلاق کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس معاملے میں تلنگانہ ملک کی ٹاپ ان سات ریاستوں میں شامل ہے،جہاں طلاق کی شرح سب سے زیادہ ہے،حیدرآباد میں صورتحال زیادہ سنگین ہے،طلاق کے معاملات میں گزشتہ5 سال میں 5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے،فیملی کورٹس میں ہر ماہ تقریبا 250 کیس درج ہورہے ہیں،ایک سال سے کم عرصے میں اوسطا 160 سے زیادہ شادیاں ٹوٹ رہی ہیں،تلنگانہ میں مجموعی طلاق کی شرح 6.7 فیصد ہے۔تشویش کی بات یہ ہے کہ 25 سے 35 سال عمر کے جوڑے زیادہ طلاق حاصل کررہے ہیں،حیدرآباد میں شادی کے اندرون ایک سال میاں،بیوی کے جھگڑوں کے کم از کم 15 مقدمات درج ہورہے ہیں،چھوٹے چھوٹے مسائل،بڑے جھگڑوں میں تبدیل ہورہے ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ رہی ہے جس سے حیدرآباد میں طلاق کلچر تیزی سے فروغ پارہا ہے،پرانی حویلی اور کوکٹ پلی کی عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں جو سماجی ڈھانچے میں بے چینی کی علامت ہے،نوجوان جوڑوں کے رشتوں میں تلخیوں کا جائزہ لیا جائے تو کئی چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں جو طلاق کی وجہ بن رہے ہیں،نوجوان جوڑوں میں بات چیت اور ایک دوسرے سے مسائل بانٹنے کا رجحان کم ہو گیا ہے جس سے غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں،آئی ٹی اور کارپوریٹ ملازمتوں نے لائف اسٹائل بدل کر ازدوا جی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ 67 فیصد طلاقیں مالی تنازعات کی وجہ سے ہورہی ہیں اور 42 فیصد مرد،قرض حاصل کر کے طلاق کے اخراجات ادا کررہے ہیں،تعلیم یافتہ اور معاشی خود مختار خواتین میں شادی اور طلاق کا ڈر،خوف ختم ہو گیا ہے وہ قربانیاں دینے میں سمجھوتہ کرنے تیار نہیں ہیں،جس سے صبر،برداشت اور ایڈجسٹمنٹ میں واضح کمی آئی ہے،سوشل میڈیا اور غیر ملکی کلچر بھی خاندانی رشتوں میں دراڑیں ڈال رہا ہے،ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر بروقت مداخلت کی جائے تو ہزاروں گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا ہے،فیملی کونسلنگ اور مشاورت سے 70 فیصد کیس حل ہوتے ہیں،شادی سے پہلے کونسلنگ کو فروغ دینا ضروری ہے،تاکہ توقعات و ذمہ داریاں واضح رہیں،چھوٹے مسائل کو کورٹ کچہری لے جانے کے بجائے بات چیت کےذریعے حل کیا جائے،میاں،بیوی کو ایک دوسرے کے لیے باقاعدہ وقت نکال کر بات چیت کو اہمیت دینی چاہیے،حیدرآباد جیسے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں رشتوں کو بچانے جذباتی رابطہ، گفتگو اور صبر وہ بنیادی چیزیں ہیں جن پر مضبوط خاندان تعمیر ہو سکتے ہیں"
یہ گزشتہ مہینے کی ایک تازہ اخباری رپورٹ ہے،معاشرے میں طلاق کے بالکل ابتدائی احکام سے بھی عام لوگ ناواقف ہیں اور طرح طرح کی غلط فہمیاں ہوچکی ہیں،ان مسائل کے سدباب کے لیے یہاں رہنمائی کی جارہی ہےتاکہ خاندانی نظام کو مضبوط و مستحکم بنایا جاسکے،سب سے پہلی غلطی یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے طلاق کو غصہ نکالنے کا ایک ذریعہ سمجھ رکھاہے،جیسے ہی میاں،بیوی میں کوئی اختلاف پیش آیا اور نوبت غصے اور اشتعال تک پہونچی،شوہر نے فورا طلاق کا استعمال کردیا،حالانکہ طلاق کوئی گالی نہیں ہے جو غصہ ختم کرنے کے لیے دے دی جائے،یہ نکاح کا رشتہ ختم کرنے کا وہ انتہائی اقدام ہے جسکے نتائج بڑے سنگین ہیں،اس سے صرف نکاح کا رشتہ ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ خاندانی زندگی کے بہت سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں،میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں، بچوں کی پرورش کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے،املاک کی تقسیم میں پیچیدگی پیدا ہوتی ہے،مہر،نفقہ اور عدت کے معاملات پر اس کا اثر پڑتا ہے،نہ صرف میاں بیوی بلکہ ان کی اولاد اور پورے خاندان پر اس کے دور رس اثرات پڑتے ہیں،اسی وجہ سے اسلام نے جہاں طلاق کی اجازت دی ہے وہاں اسے 'ابغض المباحات' قرار دیا ہے، یعنی یہ جائز کاموں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہے،عیسائی مذہب کا اصل تصور یہ تھا کہ شوہر،بیوی جب ایک مرتبہ نکاح کے رشتے میں بندھ جائیں تو اب طلاق دینے یا لینے کا کوئی راستہ نہیں ہے،بائبل میں تو طلاق کو بدکاری کے برابر قرار دیا گیا ہے،اسلام چونکہ دین فطرت ہے،اس لیے اس نے طلاق کے بارے میں یہ سخت موقف تو اختیار نہیں کیا،کیونکہ میاں،بیوی کی زندگی میں بعض اوقات ایسے مرحلے پیش آجاتے ہیں،جب دونوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ شرافت کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں،ایسے موقع پر نکاح کے رشتے کو ان پر زبردستی تھوپے رکھنا دونوں کی زندگی کو عذاب بناسکتا ہے( یہی وجہ ہے کہ عیسائی مذہب طلاق کے بارے میں اپنے اس قدیم موقف پر قائم نہیں رہ سکا،جس کی داستان بڑی طویل اور عبرت ناک ہے) اسلام نے طلاق کو ناجائز یا حرام تو قرار نہیں دیا اور نہ اس کے ایسے لگے بندھے اسباب متعین کیے جو علیحدگی کے معاملے میں شوہر و بیوی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیں،لیکن اول تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف فرما دیا کہ جائز چیزوں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے۔دوسرے شوہر بیوی کو ایسی ہدایات دی ہیں کہ اگر ان پرعمل کیا جائے تو طلاق کی نوبت کم سے کم آئے،تیسرے اگرمجبورا طلاق کی نوبت آہی جائے تو اس کا ایسا طریقہ بتایا ہے جس میں خرابیاں اور نقصان کم سے کم ہوں،آج اگر ہم ان ہدایات و احکام کو اچھی طرح سمجھ لیں اور ان پر عمل کرنے لگیں تو نہ جانے کتنے گھریلو تنازعات اور خاندانی مسائل خود بخود حل ہوجائیں، جہاں تک ان ہدایات کا تعلق ہے جو طلاق کے سدباب کے لیے دی گئی ہیں،اس میں سب سے پہلی ہدایت تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ اگر کسی شوہر کو بیوی کی کوئی بات ناپسند ہے تو اسے اس کی اچھی باتوں پر بھی غور کرنا چاہیے،مقصد یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بے عیب نہیں ہوتا،اگر کسی میں ایک خرابی ہے تو 10 اچھائیاں بھی ہوسکتی ہیں،ایک خرابی کو پکڑ لینا اور 10 اچھائیوں سے آنکھ بند کرلینا انصاف کے بھی خلاف ہے اور اس سے کوئی مسئلہ حل بھی نہیں ہو سکتا،بلکہ قران کریم نے تو یہاں تک فرما دیا کہ اگر تمہیں اپنی بیوی کی کوئی بات ناپسند ہے تو یہ بھی غور کرو کہ شاید تم جس چیز کو برا سمجھ رہے ہو اس میں اللہ تعالی نے تمہارے لیے کوئی بڑی بھلائی رکھی ہو(سورہ نسا) دوسری ہدایت قران کریم نے یہ دی ہے کہ جب شوہر بیوی آپس میں اپنے اختلافات طے نہ کرسکیں اور نرم و گرم ہرطریقہ آزمانے کے بعد بھی تنازعہ برقرار رہے تو فورا علیحدگی کا فیصلہ کرنے کے بجائے،دونوں کے خاندان والے ایک ایک شخص کو ثالث بنائیں یہ دونوں نمائندے آپس میں ٹھنڈے دل سے حالات کا جائزہ لے کر شوہر بیوی کے درمیان تنازع ختم کرنے کی کوشش کریں،ساتھ ہی اللہ تعالی نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر یہ دونوں نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالی ان کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا(سورہ نسا)
اگر یہ تمام کوششیں بالکل ناکام ہوجائیں اور طلاق ہی کا فیصلہ کرلیا جائے تو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ حکم دیا کہ شوہر اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرے اورمناسب وقت کی وضاحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ طلاق اس وقت دی جائے جب بیوی پاکی کی حالت میں ہو،اپنے ماہواری ایام سے فارغ ہوچکی ہو اور اس عرصے میں دونوں کے درمیان وظیفہ زوجیت ادا کرنے کی نوبت نہ آئی ہو،لہذا اگر عورت پاکی کی حالت میں نہ ہو تو ایسے وقت میں طلاق دینا شرعا گناہ ہے،نیز اگر طہر ایسا ہو کہ اس میں شوہر بیوی کے درمیان ازدواجی قربت ہوچکی ہو،تب بھی طلاق دینا شرعا جائز نہیں،ایسی صورت میں طلاق دینے کے لیے شوہر کو اگلے مہینے تک انتظار کرنا چاہیے۔
اس میں بہت سی مصلحتیں ہیں،ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ طلاق کسی وقتی منافرت یا جھگڑے کا نتیجہ نہ ہو،شوہر کو مناسب وقت کے انتظار کا حکم اس لیے بھی دیا گیا کہ اس عرصے میں وہ تمام حالات پر اچھی طرح غور کر لے اور جس طرح نکاح سوچ سمجھ کرہوا تھا،اسی طرح طلاق بھی سوچ سمجھ کرہی دی جانی دی جائے،عین ممکن ہے کہ اس انتظار کے نتیجے میں دونوں کی رائے بدل جائے،حالات بہتر ہوجائیں اور طلاق کی نوبت ہی نہ آئے،پھر اگر مناسب وقت آجانے پر بھی طلاق کا ارادہ برقرار رہے تو شریعت نے طلاق کا صحیح طریقہ یہ بتایا ہے کہ شوہر صرف ایک طلاق دے کرخاموشی اختیارکرلے،اس طرح ایک رجعی طلاق ہوجائے گی،جس کا حکم یہ ہے کہ عدت گزرجانے پر نکاح کا رشتہ شرافت کے ساتھ خود بخود ختم ہوجائے گا اور دونوں اپنے اپنے مستقبل کے لیے کوئی فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔اس طریقے میں فائدہ یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اگر شوہر کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ یہ سمجھے کہ حالات اب بہتر ہوسکتے ہیں تو وہ عدت کے دوران اپنی دی ہوئی طلاق سے رجوع کرسکتا ہے جس کے لیے زبان سے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے طلاق سے رجوع کرلیا،اس طرح نکاح کا رشتہ خود بخود تازہ ہوجائے گا لیکن اگر عدت بھی گزر گئی اور شوہر بیوی دونوں یہ سمجھیں کہ اب انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے،آگے وہ مناسب طریقے پر زندگی گزارسکتے ہیں تو انکے لیے یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ باہمی رضامندی سے دوبارہ از سرنو نکاح کرلیں ( جسکے لیے نیا ایجاب و قبول،گواہ اور مہر سب ضروری ہے) مذکورہ سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شوہر بیوی نے پھر سے نکاح کا رشتہ تازہ کرلیا اور پھر کسی وجہ سے دونوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوجائے،تب بھی دوسری طلاق دینے میں جلدی نہ کرنی چاہیے بلکہ ان تمام ہدایات پر عمل کرنا چاہیے جو اوپر بیان ہوئی،ان ساری ہدایات پر عمل کے باوجود اگر شوہر پھر طلاق ہی کا فیصلہ کرے تو اس مرتبہ بھی ایک ہی طلاق دینی چاہیے،اب مجموعی طور پر دو طلاقیں ہوجائیں گی لیکن معاملہ اس کے باوجود شوہر،بیوی کے ہاتھ میں رہے گا یعنی عدت کے دوران شوہر پھر رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے تیسری بار پھر نکاح کرسکتے ہیں۔یہ ہے طلاق کا وہ طریقہ جو قرآن و حدیث میں موجودہے،اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ قرآن و سنت نے نکاح کے رشتے کو برقرار رکھنے اور اسے بکھرنے سے بچانے کے لیے درجہ بہ درجہ کتنے راستے رکھے ہیں،ہاں اگر کوئی شخص ان تمام درجوں کوعبورکرجائے تو پھر نکاح و طلاق آنکھ مچولی کا کوئی کھیل نہیں ہے جو غیر محدود زمانے تک جاری رکھا جائے،لہذا جب تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ اب نکاح کو تازہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے،اب نہ تو شوہر رجوع کرسکتا اورنہ میاں بیوی باہمی رضامندی سے نیا نکاح کر سکتے ہیں،اب دونوں کو ہرحال میں علیحدہ ہونا ہی پڑے گا۔طلاق کے بارے میں انتہائی سنگین غلط فہمی سماج میں یہ پھیل گئی ہے کہ تین سے کم طلاقوں کو طلاق ہی نہیں سمجھاجاتا،لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگرطلاق کا لفظ صرف ایک یا دو مرتبہ لکھا یا بولاجائے تو اس سے طلاق ہی نہیں ہوتی،اسلئے جب کبھی طلاق کی نوبت آتی ہے تو لوگ تین طلاقوں سے کم پر بس نہیں کرتے اور کم سے کم تین مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کرنا ضروری سمجھتے ہیں،ملک کے قانون کے مطابق بھی قابل سزا جرم ہے اور ایسے مرد کو کم ازکم تین سال کی سزا ہوگی،لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا طلاق صرف ایک مرتبہ کہنے سے بھی ہوجاتی ہے بلکہ شریعت کے مطابق طلاق کا صحیح اور احسن طریقہ یہی ہے کہ صرف ایک مرتبہ طلاق کا لفظ لکھا یا کہاجائے،اس طرح طلاق تو ہوجاتی ہے لیکن اگر بعد میں سوچ سمجھ کر نکاح کا رشتہ تازہ کرنا ہوتو اس کے دروازے کسی کے نزدیک مکمل طور پر بند نہیں ہوتے،بلکہ ایک ساتھ تین مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کرنا شرعا گناہ ہے،حنفی،شافعی،مالکی اور حنبلی چاروں فقہی مکاتب فکر کے نزدیک اس گناہ کی ایک سزا یہ ہے کہ اس کے بعد رجوع یا نئے نکاح کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا اور جو لوگ ان فقہی مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ان کو اکثر تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کے بعد شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا طلاق کے معاملے میں سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کرنے سے طلاق نہیں ہوتی اور یہ بات اچھی طرح لوگوں میں عام کرنا ضروری ہے کہ طلاق کا صحیح اور احسن طریقہ یہی ہے کہ صرف ایک مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کیا جائے،اس سے زیادہ نہیں،اگر عدت کے دوران شوہر کے رجوع کا حق ختم کرنا مقصود ہو تو ایک طلاق بائن دے دی جائے یعنی طلاق کے ساتھ بائن کا لفظ بھی ملا لیا جائے تو شوہر کو ایک طرفہ طور پر رجوع کرنے کا حق نہیں رہے گا۔ البتہ باہمی رضامندی سے شوہر بیوی دونوں جب چاہیں نیا نکاح کرسکتے ہیں،طلاق کا احسن طریقہ یہی ہے کہ صرف ایک طلاق دی جائے،یہ مسئلہ پوری امت میں مسلم ہے،اس میں کسی مکتب فکر کا اختلاف نہیں ہے،ضرورت ہے کہ علماء کرام اپنے خطبوں میں ان مسائل کو عوام کے سامنے سہل انداز میں واضح کریں،سماج میں شعور بیدارکریں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی طلاق کے یہ احکام لوگوں تک پہنچائے جائیں تاکہ اس کا سدباب کیا جاسکے۔
(مضمون نگار معروف صحافی اورکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں

Post a Comment