Call to Wisdom: Faith Must Be Protected from Harmful Debates دعوت میں حکمت و مصلحت ضروری، نقصان دہ مباحث سے پرہیز لازم

بدگمانی اور شکوک و شبہات بڑھانے والی دعوت سے بچیں

از :ذکی نور عظیم ندوی ۔ لکھنؤ

دعوتِ دین میں حکمت و مصلحت اور علم و بصیرت کے ساتھ ماحول کےصحیح شعور، اس کے متوقع نتائج کےتصور، بعد میں سامنے آنے والی صورتحال کی ذمہ داری اور اس سے نمٹنے کے طریقوں پر بھی نظر ضروری ہے۔ یہ محض کسی مسئلہ پر آواز بلند کرنے یا کسی فکر و عقیدے کو کسی دوسرے پر زبردستی مسلط کرنے کا نام نہیں۔ یہ دلوں تک پہنچنے اور حق کی تلاش میں رہنے والوں کو جگانے کی منظم اور سنجیدہ کوشش ہے، جس کا مقصدتزکیہ نفس اور تاریکی وغلط فہمی کا ازالہ اور حق و عدل کا راستہ واضح کرناہے۔

  قرآنِ کریم نے صدیوں پہلے دعوت کا مختصر مگر ہمہ گیر اصول بیان کرتے ہوئےدعوت میں حکمت اور حسنِ نصیحت کے ساتھ مکالمہ و مناقشہ کی ضرورت پڑنے پر بہترین اسلوب اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے،جودعوت کا بنیادی اصول اور اس کے مختلف مراحل میں اصل قابل توجہ پہلو ہے۔ اس کے بغیر دعوت کی کامیابی موہوم، اس کی تاثیر کمزور، اور کبھی کبھی تو فائدہ کے بجائے نقصان کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔

 دعوت نسل انسانی کے آغاز سے ہی مطلوب و مستحسن عمل ہے، مختلف جلیل القدر ہستیوں نے اپنے زمانے اور حالات کے مد نظر مختلف طریقوں اور اسلوب میں اس کو انجام دئے، لیکن گزشتہ نصف صدی سےحالات میں تیزی سے تبدیلیاں ہوئیں، اور دعوت کے اسالیب کئی شکلوں میں سامنے آنے لگے۔ تقریر، تحریر، درس و نصیحت، علمی مباحث و مناقشے وغیرہ وغیرہ۔ 

 یہ سب اپنی اپنی جگہ مفید اور اہم، مگر وہ علمی گفتگو یا مناقشہ جس میں کسی معترض یا منکر کے شبہات کا معقول اور اطمئنان بخش جواب دینے کی کوشش کی جائے سب سے زیادہ اہم ،بڑا کار خیر، ایک نیک عمل اور انسان کو اللہ کے قریب لانے کا ذریعہ ہے، لیکن یہ گفتگو اگر غلط جگہ، غلط وقت، غلط ماحول اور غلط انداز یا اسلوب میں کی جائے تو اس کے اثرات کبھی کبھی نہایت خطرناک اور نقصاندہ ہو جاتے ہیں۔کیونکہ حکمت ہر سوال کا جواب ہر حال میں دینے کے بجائے یہ ہے کہ کہاں جواب دینا مفید ہے اور کہاں خاموشی زیادہ نتیجہ خیز، کہاں گفتگو دلوں کو قریب کرتی ہے اور کہاں مزید فاصلہ پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

 وجودِ باری تعالیٰ کا اعتراف و اقرار فطری ادراک و شعور پر مبنی ہے اور اسی وجہ سے تقریبا بیشتر مذاہب کے پیروکار کسی نہ کسی انداز میں اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے منکرین و معترضین کی تعداد آج بھی بہت کم ہے۔ عام انسان سادہ اور فطری انداز میں زندگی گزارتے ہیں۔ وہ نہ فلسفے کی گہری راہوں میں جاتے ہیں، نہ وجودِ واجب، امتناعِ تسلسل یا علت و معلول جیسے پیچیدہ علمی مباحث سے شناسائی رکھتے ہیں۔ ان کی ایمان کی بنیاد علمائے کرام کی تعلیم، والدین کی تربیت اور فطرت کے سادہ شعور پر ہے۔ یہ سادگی ایک نعمت ہے، کیونکہ ایمان کی شمعیں کئی بار طویل عقلی مباحث سے نہیں بلکہ دل کی پاکیزگی اور فطرت کی روشنی سے واضح ہوتی ہیں۔

 ایسے ماحول میں اگردعوتی مقاصد اور رضائے الٰہی کیلئے وجودِ باری تعالیٰ کے منکرین یا اس کے معترضین سے گفتگو کی ضرورت پڑے تو یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ گفتگو صرف ایسے حلقوں میں مفید ہوسکتی ہےجہاں سننے یا دیکھنے والے علمی گہرائی رکھتے ہوں، اور یہ سمجھتے ہوں کہ اعتراضات کیا ہیں اور دلائل کے جواب کیا، جہاں عوام پر منفی اثرات کا خطرہ نہ ہو وہاں مناقشہ عبادت اور علمی خدمت ہوسکتا ہے، اور امید کی جاسکتی ہے کہ شاید کوئی مشکوک شخص راہِ حق کی طرف پلٹ آئے۔

 لیکن اگرایسی گفتگو یا مناقشہ عوام کے سامنے ہو، اسے لائیو نشر کیا جائے، یوٹیوب کی اسکرینوں، فیس بک ، یا مختلف میڈیا پلیٹ فارمز کی لائیو اسٹریمنگ میں پیش کیا جائے، تو معاملہ مختلف ہوجاتا ہے۔ وہاں سننے والے وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی ایسے شبہات کا نام تک نہ سنا تھا۔ ان کے دلوں میں اس سے وہ چبھن پیدا ہوتی ہے جن کے جواب وہ نہیں سمجھ سکتے۔اور یہ خدشہ ہوتا ہے کہ وہ اعتراضات جو ایک محدود طبقے کو تھے، ہزاروں ذہنوں کو پریشان نہ کردیں اور جنہیں کبھی ایسی گفتگو سے سابقہ نہ پڑا تھا، غیر ضروری وساوس کا شکار ہو جائیں۔ یاد رکھیں ایمان بہت بڑی نعمت ہے، اسے دھچکا لگ سکتا ہے، معمولی شبہات سے لرز سکتا ہےاور یوں نیکی کے ارادے سے ہونے والا عمل کبھی کبھی ایمان کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے لگتا ہے۔

 اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ وہ لمحہ ہوتا ہے جبِ وجودِ باری کا کوئی منکر گفتگو کے دوران حد ادب پار کر جائے، زبان سے ایسے غیر مہذب، گستاخانہ یا بےحیا الفاظ ادا کر دے جنہیں سننا ایک مسلمان کے لیے جان گسل ہو۔ اللہ کے بارے میں بے ادبی کا تصور بھی دل کو زخمی کرتا ہے، فضول جملے سن کر روح لرز اٹھتی ہے۔ یہ سب اگر نجی مجلس میں ہو تو شاید ایک بلند مقصد کی خاطر صبر کر کے سہا جا سکتا ہے، مگر اگر یہ سب عوام کے سامنے براہِ راست نشر ہو رہا ہو تو یہ منظر نہ صرف تکلیف دہ بلکہ ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ خطرہ صرف شبہات کا نہیں بلکہ ایمان کی حرمت اور اللہ کی شان کے بارے میں لوگوں کے دلوں پر ہونے والی وہ ضرب بھی سامنے آتی ہے جس کا کوئی ازالہ نہیں۔

دعوت ایسی جگہ یا ایسے انداز میں مطلوب نہیں جہاں نقصان کا اندیشہ فائدے سے زیادہ ہو۔ اگر کسی بحث کا فائدہ دس افراد کو ہے اور اس کا نقصان سو افراد تک پہنچنے کا خدشہ، تو حکمت یہ ہے کہ اس بحث سے اجتناب کیا جائے۔ اگر کسی مناقشے میں حق کا اظہار ہو بھی جائے مگر اس کے ساتھ نادان ذہنوں میں بے شمار نئے شبہات جنم لیں اور ایسے سوالات پیدا ہوں جس کے جواب وہ نہ ڈھونڈ سکیں تو یہ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس دروازے سے فتنہ داخل ہونے کا اندیشہ ہو اسے کھولنا حکمت نہیں۔

 اس لئے منکرینِ وجودِ باری سے گفتگو اگر کرنی ہی ہو تو محدود ماحول میں، علمی مجالس میں، تربیت و تعلیم یافتہ طلبہ وافراد کے درمیان، جہاں سننے والے کسی غلط نظریے کا شکار نہ ہوں۔ لیکن اس گفتگو کو عوامی سطح پر لائیو نشر کرنا، ہر شخص کے موبائل تک پہنچا دینا، اور ان سوالات کو پھیلانا جن سے عام لوگ مانوس ہی نہیں ہرگز مناسب نہیں، اور نہ دعوتی حکمت کے معیار پر درست ہے۔

ضرورت ہے کہ دعوت دینے والےسمجھیں کہ حکمت بے لگام آزادی کا نام نہیں، وہ ہر بات کہنے کا حق نہیں دیتی بلکہ یہ سکھاتی ہے کہ کیا کہنا ہے، کہاں کہنا ہے، کس سے کہنا ہے اور کب کہنا ہے۔ ہر سوال کا جواب ہر جگہ لازم نہیں، ہر بحث ہر مجمع میں نہیں کی جاتی، اور ہر اعتراض عوام کے سامنے بیان کرنا دانشمندی نہیں۔ ایمان کی حفاظت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی دعوت، اور بعض اوقات ایمان کی حفاظت خاموشی، احتیاط اور حکیمانہ رویے سے ہوتی ہے۔

 لہٰذا اگر وجودِ باری کے بارے میں گفتگو کی ضرورت ہو تو اس دائرے میں کہ اس کا فائدہ یقینی، ماحول محفوظ ہو، اور زبان کی بے ادبی کو روکنا ممکن ہو۔ عوامی سطح پر ایسے پروگرام دینی حمیت، ایمانی ذوق اور دعوتی حکمت اور دیگر بعض وجوہات سے کسی طرح مناسب نہیں۔دعوت ایسی موقعوں پر جہاں روشنی کی جگہ اندھیرا آنے، یا علم کی جگہ انتشار کا خدشہ ہو درست نہیں۔

 دعوت ایک مقدس ذمہ داری ہے جو ہمیشہ ضبط، احتیاط اور غور و خوض کے بغیر کارگر نہیں۔ حکمت سے اٹھنے والا قدم کبھی گمراہ نہیں ہوتا، اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والوں کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں اس کی کوشش کچھ کمزور لوگوں کے دلوں میں نئے وساوس تو نہیں پیدا کر رہی۔ جب نیت پاک اور طریقہ درست ہو تو دعوت پھل لاتی ہے، دلوں میں نور اترتا ہے، اور اللہ کا فضل ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن جب نیت اچھی ہو مگر حکمت نہ ہو تو کبھی کبھی نیکی بھی فتنے میں بدل جاتی ہے۔

آج کے ماحول میں سب سے زیادہ ضرورت دعوتِ دین کو علمی، سنجیدہ اور باوقار اسلوب میں پیش کرنے کی ہے۔ اور حکمت و بصیرت کا تقاضہ ہے کہ ایسے ہر راستے سے بچا جائے جہاں ایمان کی حرمت کو ٹھیس پہنچے اور اس طرح یہ توقع وابستہ کی جاسکتی ہے کہ امت فتنوں کے ہنگاموں میں بھی اپنے ایمان کی روشنی برقرار رکھ سکے گی۔

zakinoorazeem@gmail.com

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں

0/Post a Comment/Comments