چھ دسمبر 1992ء: وہ دن جب ہندوستان کی روح چاک ہوئی
از : جمیل احمد ملنسار ۔ بنگلور۔
موبائل: 9845498354
دہائیوں گزر گئے مگر 6 دسمبر کا دن ہندوستان کی اجتماعی یادداشت میں ایک ایسا گہرا زخم ہے جو کبھی بھر نہیں پایا۔
بابری مسجد کی تباہی، جو 1528ء میں میر باقی نے مغل بادشاہ بابر کے دور میں تعمیر کی تھی، صرف ایک عمارت کا انہدام نہیں تھا۔ یہ ایک وعدے کا ٹوٹنا تھا، ایک ایسی شکست جو مختلف مذاہب کے درمیان نازک ہم آہنگی کو چیر کر رکھ گئی۔ اس دن نے واضح کر دیا کہ مذہب طاقت کا ہتھیار بن سکتا ہے، تاریخ کو تشدد کے ذریعے لکھا جا سکتا ہے، اور قانون کو سیاسی غرض سے مڑوا دیا جا سکتا ہے۔
آپ کسی بھی شہر یا قصبے میں ہوں، اس دن کے بعد ہر عام مسلمان کی زندگی بدل گئی۔ امن، جو کبھی روزمرہ کا معمول تھا، خوف و ہراس میں بدل گیا۔ بازاروں میں دکانیں جلیں، گھر اجڑے، سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ وہ گلیاں جہاں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ خوشیاں مناتے تھے، اب خوف، شک اور عدم اعتماد کی جگہ بن گئیں۔ اس دن کے بعد ہر احتجاج، ہر تہوار، ہر محفل میں ایک غیرمحسوس سی کشیدگی چھا گئی۔ یہ صرف مقامی مسئلہ نہیں تھا بلکہ پورے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑک گئی، جس نے ہندوستان کی سیکولر جڑوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
یہ تنازع بہت پرانا ہے۔ 1859ء میں برطانوی حکمرانوں نے مسجد کی جگہوں کو الگ کیا، اور 1949ء میں ہندوؤں نے مسجد کے اندر بت رکھ کر مسلمانوں کی عبادت روک دی۔ 1980ء کی دہائی میں یہ مذہبی مسئلہ سیاست کا ہتھیار بنا۔ وشو ہندو پریشد نے رام جنم بھومی کی تحریک شروع کی، اور 1990ء میں ایل کے آدوانی کی رتھ یاترا نے فرقہ وارانہ دوریاں مزید بڑھائیں۔ عام مسلمان پریشان تھے، کیونکہ انہیں اب اپنی زندگی میں تشویش اور خدشات نے گھیر لیا تھا.1992ء کی تباہی ایک سنگ میل تھی، اور اس کے بعد آنے والے گزرے برسوں میں ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں نے فرقہ وارانہ تشدد کے خوف میں زندگی گزاری۔ 2002ء میں گجرات کے فسادات نے یہ بات واضح کر دی کہ ریاستی مشینری بعض اوقات مسلمانوں کے خلاف ہے۔ سینکڑوں، ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئی، گھر جلائے گئے، اور اس ظلم کے خلاف انصاف تلاش کرنا ایک خواب بن گیا۔ اس سے پہلے کے کئی واقعات جیسے ہاشم پورہ اور بھگلبھر کے واقعات بھی اس بھیانک تصویر کا حصہ ہیں۔
عدالتوں کے فیصلے بھی مخلوط تاثرات چھوڑتے ہیں۔ 2009ء میں لیبرہن کمیشن کی رپورٹ نے کئی سیاسی رہنماؤں کو ذمہ دار ٹھہرایا لیکن کوئی حقیقی سزا نہ ہوئی۔ 2019ء میں سپریم کورٹ نے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا اور مسلمانوں کو شہر سے دور ایک پانچ ایکڑ پلاٹ دیا، جو بعض لوگوں کے لیے تسلی کا باعث تو تھا مگر دوسروں کے لیے تاریخی ناانصافی کا مظہر تھا۔ اس کے ساتھ اگرچہ شہریت ترمیمی قانون اور بیف تحفظ قوانین آئے جنہوں نے مسلمانوں کی زندگیوں کو مزید پیچیدہ بنا دیا، اور عدالتوں نے اکثر حکومت کی حمایت کی۔ یہ جہاں مسلمانوں کے لیے دباؤ میں اضافہ تھا، وہاں اس نے ملکی سیکولر ازم کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔
عام مسلمان کی روزمرہ زندگی آج بھی اس کشیدگی کے سائے میں گزرتی ہے۔[عید کی نمازیں احتیاط کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں، بازاروں میں خریداری خوف کے ساتھ ہوتی ہے، اور "لو جہاد" کی افواہوں نے معاشرتی روابط کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ لوگ اب ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں ,چاہے کسی چھوٹے قصبے کی گلی ہو یا بڑے شہر کا محلہ، مسلمانوں کی خوشیاں خوف زدہ، امیدیں کمزور اور تعلقات ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود زندگی کی جدوجہد جاری ہے، لوگ اپنے ثقافتی رنگوں کو بندوق کی گولیوں کے سامنے ہارنے نہیں دیتے اور امید کی کرن تلاش کرتے ہیں۔
آج، 6 دسمبر 2025 کو، پورے ملک میں سخت حفاظتی انتظامات ہیں۔ سیاسی تنازعات اور سماجی مخالفت کے باوجود، ایسے واقعات اور مسائل اٹھتے رہتے ہیں جو مقررہ وقت پر جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود کچھ لوگ تبدیلی کے لیے کام کر رہے ہیں، نوجوان نفرت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، اور عدلیہ میں مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ آئندہ کا راستہ ہم سب کی ذمہ داری ہوگا کہ ہم احترام، برداشت اور مساوات کی بنیادوں پر ایک ایسی قوم بنائیں جہاں ہر فرد کو اس کے حقوق ملیں، اور کوئی مذہب اس کی پہچان پر سوال اٹھا نہ سکے۔
یہ مضمون تاریخ کا ایک بیان نہیں، بلکہ ایک آگے بڑھنے کی اپیل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم آہنگی اور انسانیت کے راہوں کو مضبوط کریں تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک پرامن، آزاد، اور مساوی ہندوستان دے سکیں جہاں ہر مذہب کو عزت ملے اور کوئی خوف یا نفرت نہ ہو۔ یہی ہمارا فرض اور رب کا حکم ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں


Post a Comment